Call us : +91 94227 87162 Follow us:
Call us : +91 94227 87162

مختصر سوانح حیات

سلطان الاولیاء حضرت خواجہ الحاج الشاہ سیّد سلطان ضمیرالحق چشتی نظامی فخری رحمتہ اللہ علیہ

اسم شریف : سیّدمنیراحمدچشتی تاریخی نام سلطان ضمیرالحق

والدصاحب : حافظ سیدسراج احمدچشتی

ولادت باسعادت : ۲۳/ شعبان المعظم ۱۳۳۹ھ میں لالاپور دیویٰ شریف میں پیداہوئے

تعلیم وتربیت : آپ نے جملہ علوم معنوی و صوری اپنے والدمحترم سے حاصل کیا ۔ اس کے بعد والدمحترم کے حکم پر ایک با صلاحیت جیّدعالم دین آپ کو گھر پر پڑھانے کے لئے مستقل آتے رہے ان عالم دین سے مکمل استفادہ کرنے کے بعد آپ کو فتح پو ر تحصل جو دیویٰ شریف سے ۱۶ کلومیٹر کے فاصلے پرہے آپ کو وہاں دارالعلوم میں داخل کیا گیا آپ نے وہاں کے قابل اساتذہ سے مکمل علمی استفادہ حاصل کیا اور پھرآپ کو دارالعلوم فرہنگی محل میں والدمحترم نے داخل کیا وہاں آپ نے مکمل علوم حاصل کئے اس کے بعد آپ کو مختلف اسناد سے نوازا گیا ۔ اس کے بعد حیدرآباد تشریف لے گئے وہاں مختلف علوم اساتذہ سے حاصل کرتے رہے اور اپنے ماموں سے خاص طورپر علم طب مکمل حاصل کیا ۔۹/سال کی عمرمیں آپ کے والد محترم نے آپ کو خرقۂ خلافت چشت سے نوازا ۔ علم شریعت و طریقت ومعرفت کے زیورسے آراستہ پیراستہ ہوکر ۱۳/ سال کی عمرمیں میدان عمل

abt-img.jpg

میں قدم رکھدیا ۔ پھرپوری زندگی خلق خدا کیلئے وقف کردی ۔ کوئی فریادی آپ کے درسے خالی نھیں لوٹا۔ علم حکمت کے نور سے تاریک دلوں کو روشن کیا ۔ آپ ۹یا ۱۰ سال کی عمرشریف میں جب نسخہ لکھتے تھے اس زمانے میں اپنے وقت کے عظیم حکیم حکیم وقت حکیم انورعلی صاحب فرمایا کرتے تھے میں اس بچے کی حکمت کا قائل ہوں جوبھی روتاہوا آتاہے ہنستاہوا چلاجاتاہے ۔ آپ اپنے وقت کے باکمال ولی بے مثال حکیم اورصاحب کشف باکرامت ولی تھے۔

آپ کی مشہور کرامت : آپ کی بیشمار کرامتیں ہیں اس میں سے ایک کرامت یہ بھی ہے ایک مرتبہ دارالعلوم سلطانیہ اشرف العلوم (نوروں ، ضلع بستی پوپی ) جوآپ ہی کے نام سے منسوب ہے اس کا سالانہ اجلاس تھا۔ جس میں ازہر ایشیا الجامعتہ الاشرفیہ مبارکپور کے بانی و مہتم حضورحافظ ملّت رحمتہ اللہ علیہ، اور شیربشیۂ اہل سنّت حضرت مولانا حشمت علی رحمتہ اللہ علیہ ، اور حضور سلطان الاولیا ء رحمتہ اللہ علیہ کومدعو کیاگیا تھا۔ اورساتھ ہی ساتھ ہند کے مقتدر اور جیّد علمائے اکرام بھی موجود تھے۔ اجلاس کے دن دوپہر سے ہی بہت زوروں کی بارش شروع ہو گئی ۔ حضرت مولانا ممتازاشرف القادری صاحب کو خوف لاحق ہوا کہ اسی طرح بارش ہوتی رہی تو اجلاس کا ہونا مشکل ہوجائے گا۔ مولانا ممتازاشرف القادری حضورسلطان الاولیاء کی قیام گاہ پر پہنچے اور عرض کی حضور اسی طرح بارش کا سلسلہ جاری رہا تو اجلاس کیسے ہوسکے گا۔ آپ کچھ کیجئے کہ بارش رک جائے ۔ آپ نے اسی وقت ایک تعویذ عنایت فرمایا اور فرمایا اس تعویذ کو مناسب جگہ پر دبایا جائے جہاں سے آسمان نظر آئے مولانا ممتازاشرف القادری نے چھتری لی اور دارالعلوم کی چھت پر گئے اور تعویذ کو مناسب جگہ دیکھ کر پتھر سے دبادیا۔ جیسے ہی مولاناممتاز اشرف القادری نے تعویذ کودبایا اسی وقت بارش رک گئی اور مولانا ممتازاشرف القادری کہاں توبارش سے بچنے کیلئے چھتری لیکر گئے تھے اور اب بارش بند ہوجانے پر چھتری بند کرکے واپس آئے ۔ تمام حاضرین نے سلطان الاولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی کرامت و تصرف پر اللہ کا شکر اداکیا ۔سالانہ اجلاس شروع ہوا ۔ پورے شباب پرچلا اور اختتام پذیرہو ا مگر بارش کی ایک بوند نہیں گری ۔ اجلاس کے اختتام کے بعد مولانا ممتازاشرف القادری حضورسلطان الاولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے پاس حاضرہوئے اور عرض کی حضور اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ اجلاس بخیروعافیت اختتام پذیرہوا۔حضورسلطان الاولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے بارش رکنے کے لئے جو تعویذ دیاتھا اسے واپس لائیے ۔حضور حافظ ملّت علیہ الرحمہ نے مولانا ممتاز اشرف القادری سے فرمایا کہ مولانا آپ نے تعویذ کہاں دبایاتھا ۔ جاؤ وہ تعویذ حضرت کو واپس کردو ۔ مولانا اشرف القادری گئے اورتعویذ کو نکال لائے ۔ جیسے ہی مولانا صاحب نے تعویذ نکالا پھر بارش شروع ہوگئی ۔ مولانا صاحب اس مرتبہ چھتری نہیں لے گئے تھے ۔ اس لئے بارش سے بھیگتے ہوئے آئے اورتعویذ سلطان الاولیاء علیہ الرحمہ کو واپس کردی ۔ اس وقت حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے حضورسلطان الاولیاء رحمتہ اللہ علیہ سے ارشاد فرمایا حضرت اپنا ایک بچہ مجھے دے دیجئے حضورسلطان الاولیاء نے مولانا ممتازاشرف القادری سے فرمایا گھر آئیے اور سیدمحمدفاروق میاں چشتی کو حضور حافظ ملت کی بارگاہ میں بھیج دیا

حضورسلطان الاولیاء بہت باکرامت صاحب تصرف و بافیض بزرگ ہیں۔ جن سے عوام تو عوام اکابر شخصیات نے بھی فیض حاصل کیا ہے ۔

وصال باکمال : ۶۵ / سال تک اپنی نوری کرنوں سے خلق خدا کی تاریک راہوں کو منوّر کرنے والے وہ ماہ ولایت ۲۹ / رجب المرجب ۱۴۰۶ھ بروزجمعرات بعد غروب آفتاب بظاہر افق عالم سے رو پوش ہوگئے ۔ مگر ان کے روحانی فیوض و برکا ت آج بھی جاری و ساری ہیں ۔ آج بھی آپ کی بارگاہ میں حاضرہونے والا کوئی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ آپ کا مزارشریف اپنے خاندانی مکان لالاپور دیویٰ شریف ضلع بارہ بنکی یوپی الھند میں ہے ۔